*طالبان امریکہ معاہدہ عالم اسلام و کفر کے لیے سبق آموز*maulana huzaifa vastanvi



*طالبان امریکہ معاہدہ عالم اسلام و کفر کے لیے سبق آموز*

بندہ آج جلالین کا درس دے رہا تھا اتفاق سے درس کی آیت تھی انا نحن نرث الأرض ومن علیہا و الینا یرجعون اور شام کو جب طالبان امریکہ امن معاہدہ پر دستخط کی خبر پڑھی تو اس آیت کی مصداقیت کو گویا تازہ تازہ محسوس کیا کہ بے شک قرآن کریم کا اعلان ان اللہ لایخلف المیعاد برحق ہے امت مسلمہ دوسو سال سے مغلوبیت کا شکار اور سو سال سے اپنے نظام خلافت سے محرومی اور دشمنان دین مبین کی ہر طرح کی گہری اور وسیع سازشوں کے باوجود نہتے کہے جانے والے اہل حق کے ترجمان طالبان کے سامنے 19 سال بعد بھی باطل کو نہ چاہتے ہوئے بھی سرنگوں ہونا پڑا پورا عالم کفر وہاں امنڈ آیا تھا مگر وہ ایمان و یقین کے پرجوش اور باہوش دنیا کی نگاہ میں کمزور سمجھی جانے والی چھوٹی سی اور بے سروسامانی کی شکار جماعت جس کا سوائے خدا کے دنیا میں کوئی سہارا نہیں کے سمانے ٹک نہیں سکے اور قرآن کا ایک اور مزدہ ان پر صادق آیا اور وہ ہے


 کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثرۃ بإذن اللہ
اسی طرح
انتم الاعلون ان کنتم مؤمنين کا وعدہ بھی اللہ نے سچ کر دکھایا
ان تنصروا اللہ ینصرکم بھی ان پر صادق آیا
ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ والی آیت کریمہ بھی ان پر منطبق ہوگئی اسی طرح ان تتق اللہ یجعل لکم فرقانا

ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا

جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا
یہ اور اس جیسی  بے شمار آیتوں کی تفسیر عملی اج ہمارے سامنے ہے اب اس میں سبق ہے ان مسلمانوں کے لیے جو جمہوریت سیکولرازم اور مادیت کی ظاہری چکا چوند کے پیچھے اندھا دھند درڑ رہے ہیں اتاترک کا ترکی عربوں کی ملوکیت اور دیگر ان کے مقلد اعمی نام نہاد مسلم ممالک یا ان کے حکمران چل رہے ہیں اور نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود وہ قابل ذکر ترقی سے محروم ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحیح فرمایا أعزنا اللہ بالإسلام ولو ابتغینا العزۃ بغیر الإسلام لاذلنا اللہ لہذا مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور اسلامی تعلیمات کی طرف مکمل لوٹنا چاہیے اور ادخلوا فی لاسلم کافۃ پر عمل پیراں ہوجانا چاہیے اور عالم کفر کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کتنی ہی طاقت حاصل کرلے اور جو چاہے سازشیں رچ لے اسلام کو شکست نہیں دے سکتے ہیں اور نہ ہی سر زمین سے اس کے پاک وجود کو ختم کرسکتے ہیں.
بس اس وقت پورے عالم کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار ہونے کی سخت ضرورت ہے سب سے بڑی جس بیماری کا ہم شکار ہیں وہ یے غفلت
دین سے غفلت
قرآن کریم سے غفلت
 نماز سے غفلت
عبادت سے غفلت
ریاضت سے غفلت
علم مطالعہ تحقیق و ریسرچ سے غفلت
اخلاق سے غفلت
دعوت سے غفلت
نیکیوں سے غفلت
جہاد سے غفلت

غرضیکہ غفلت کے ہماگیر مہلک ترین مرض سے خلاصی ہماری تمام دنیوی و اخروی پستی اور ناکام کا حل اور علاج ہے.


 *غفلت* 
امام ابن القیم فرماتے ہیں کہ دوچیزیں ایسی ہیں کہ اگر کسی انسان میں سرایت کر جائے تو وہ آدمی دنیا اور آخرت کی تمام تر بھلائیوں سے محروم اور نامراد ہوجاتاہے اور ذلت اور مسکنت اس کا مقدر بن جاتی ہے اور وہ ہے: غفلت، خاص طور سے علم اور عمل سے۔ سستی۔ یہ دوایسی رذیل خصلتیں ہیں کہ جن کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ انسان کے دنیوی اور اخروی تمام تر مصائب کی بنیاد یہی دوچیزیں ہیں تو مبالغہ نہ ہوگا  ۔

غفلت پر قرآن کی تنبیہات
قرآن کریم جیسی پاکیزہ اور مقدس کتاب میں جو انسان کے لیے دستور حیات کی حیثیت رکھتی ہے اور جس میں بہت ایجاز واختصار سے کام لیا گیا ہے، مگر اس کے باوجود الدکتور ادریس علی الطیب کی تحقیق کے مطابق ”الغفلة“ کا ذکر قرآن کریم میں 21/سورتوں میں 35/آیتوں میں ہواہے۔ (الغفلة فی القرآن الکریم )

اسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ غفلت کیسی ہلا کت خیز شے ہے 

غفلت کی لغوی تحقیق
غفلت کے لغوی معنی ہیں: ﴿الذَّہُوْلُ وَ النِّسْیَانُ وَ عَدَمُ التَّذَکُّرِ وَ عَدَمُ التَّفَطُّنِ وَ التَّیَقُّظِ﴾ (الغفلة فی القرآن) یعنی بھول جانا، یادنہ رکھنا، ذہانت وفطانت سے محروم ہونا۔

غفلت کی اصطلاحی تعریف
سھو یعتری الانْسَان مِنْ قِلَّةِ التحفظ والتیقظ․(المفردات:364)

امام راغب فرماتے ہیں کہ اصطلاحاً غفلت کہا جاتاہے ”انسان پر طاری ہونے والی اس کیفیت کو جو لاپرواہی اور عدم تیقظ کی وجہ سے پیش آتی ہے“۔

امام جرجانی فرماتے ہیں:کہ”اَلْغَفْلة ھی متابعة النفس علی ما تشتہیہ“ غفلت کہا جاتاہے نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے کو۔ (التعریفات:161)



امام عبدالرحمن الجوزی فرماتے ہیں:  عقل مند کبھی بھی غفلت کا شکارنہیں ہوتا،کیوں کہ وہ جانتاہے کہ غفلت کا انجام بڑا ہلاکت خیز ہوتاہے۔(الآداب الشرعیة:ج2/ص229)

بعض حضرات نے کہا کہ غفلت کہا جاتا ہے ”غیرمفید امور میں وقت ضائع کرنا۔“

غفلت کی شرعی تعریف
اصطلاح شرع میں غفلت کہتے ہیں: ”الاشتغال بالدنیا عن الآخرة“ آخرت فراموشی کے ساتھ دنیاوی امور میں منہمک ہونا۔
غرضیکہ طالبان کی کامیابی کے بہت راز ہین جن مین بنیادی
تمسک بالدین کاملا مکمل دین اسلام کی پیروی
اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے جہد مسلسل اور سعی پیہم
اللہ کی ذات ہر کامل اعتماد
ہمت جرات اور ہوشمندی و استقامت
غفلت سستی کاہلی اور لغو اور بیہودگی سے اجتناب
شاعر کیا خوب کہتا ہے

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں  نہ تدبیریں 
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں 


کوئی اندازہ  کر سکتا ہے اس کے  زور بازو کا 
نگاہِ مر دِ مومن سے  بدل  جاتی  ہیں  تقدیریں 
ولایت ، پادشاہی ، علم اشیا  کی  جہاں گیری 
یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں 
براہیمی نظر  پیدا  مگر مشکل  سے ہوتی  ہے 
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں 
تمیزِ  بندۂ  و آقا   فساد  آدمیت   ہے 
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تغریریں 
حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہوکہ نوری ہو 
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں 
یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح  عالم 


جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

ایک اور مقام پر شاعر کے بیان کردہ حقیقت کی ترجمانی کرتے کلام سے لطف اٹھائیے

سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا 
خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا 
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے 
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا 

جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی 
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا 
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے 
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا 
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے 
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا 
ترے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے 


مسلماں سے حدیث سوز و ساز زندگی کہہ دے 
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہے 
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے 
پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی 
ستارے جس کی گرد راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے 
مکاں فانی ، مکیں آنی، ازل تیرا، ابد تیرا 
خدا کا آخری پیغام ہے تو، جاوداں تو ہے 
حنا بند عروس لالہ ہے خون جگر تیرا 
تری نسبت براہیمی ہے، معمار جہاں تو ہے 
تری فطرت امیں ہے ممکنات زندگانی کی 
جہاں کے جوہر مضمر کا گویا امتحاں تو ہے 
جہان آب و گل سے عالم جاوید کی خاطر 
نبوت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے 
یہ نکتہ سرگزشت ملت بیضا سے ہے پیدا 
کہ اقوام زمین ایشیا کا پاسباں تو ہے 
سبق پھر پڑھ صداقت کا ،عدالت کا ، شجاعت کا 


لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

توا آیے انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی طرح  کامیابی کو دعوت دیتے ہیں اللہ ہمیں عقل سلیم سے نوازے اور حق کو بول بالا کرنے میں ہمیں شامل فرمائے آمین یا رب العالمین
حذیفہ وستانوی
---------------------
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم ،
   
              از, شمشیر حیدر قاسمی


کتابی چہرہ، سانولا رنگ، کشادہ پیشانی، بڑی بڑی خوبصورت اور پیرانہ سالی کے باوجودہ چشمے سے عاری آنکھیں، نحیف و لاغر جسم کا حامل مگر عزم و ارادہ کا کوہ ہمالہ ، اپنے نظریے اور قول پر غایت درجہ اعتماد رکھنے والا ،مہمان نواز، انواع واقسام کے کھانوں کے ساتھ مہمانوں کی خاطر تواضع کرنے کا  بے حد شوقین، اچھی خوشبو اور عمدہ قسم کے عطر کے استعمال کا دلدادہ شخصیت کے تصور سے ذہن کے دریچے پر جس عظیم ہستی کا نقشہ ابھر کر آتا ہے، وہ ہیں، استاذ محترم ،عالی مرتبت جناب حافظ محمد مسلم صاحب، جنھیں مرحوم لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہا ہے، دل گھبرا رہا ، آنکھیں اشکبار ہوا چاہتی ہے، بڑے ہی صاحب کمال آدمی تھے، گزشتہ شب تقریبا گیارہ بجے میں علامہ یوسف بنوری علیہ الرحمہ کی کتاب نفحة العنبر  (جو علامہ انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ کی سوانح حیات پر عربی زبان میں نہایت ہی عمدہ تصنیف ہے، بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ عربی  ادب کا ایک عظیم شاہکار ہے،) کے مطالعے میں مصروف تھا، سامنے موبائل چارج میں لگاہوا تھا، اس کی گھنٹی بجی، دیکھا تو برادر مکرم مفتی جمشید صاحب کا نمبر تھا، میں یہ سمجھا کہ جمعرات ہے، شاید مدرسے کے تعلق سے کچھ بات کرنا چاہتے ہوں ، میں نے  جوں ہی کال ریسیو کیا، تو علیک سلیک کے بعد فورا انھوں نے یہ اندوہناک خبر دی کہ جناب حافظ محمد مسلم صاحب کا ابھی ابھی کچھ دیر قبل انتقال ہوگیا، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون، اول وہلہ میں دل کو یقین نہیں آرہا تھا، لیکن راوی کی ثقاہت کی بناء پر انکار کی بھی گنجائش نہیں تھی، اس لئے میں نے معلوم کیا کہ جنازہ کی نماز کب ہوگی، تو انھوں نے بتایا کہ ابھی طے نہیں ہوا ہے، لیکن اندازہ یہ لگایا جا رہا ہے کہ کل ظہر تک ادا کی جائے گی، چاہنے کے باوجود میرے لئے جنازے میں شرکت کی کوئی شکل نہیں تھی، جس کا  بڑا قلق ہے، محروم شروع ہی سے جسمانی طور پر پتلے دبلے مگر صحتمند تھے،خوش الحان حافظ ہونے کے ساتھ دینی مسائل کا خاصا مطالعہ رکھتے تھے، انھیں اپنے مطالعے اور علم پر زبردست اعتماد تھا، علمی مباحثے میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، اور اچھے اچھوں کو ان کے مطالعہ اور تحقیق کا لوہا ماننا پڑتا تھا، ادعیہ ماثورہ کا بہت بڑا ذخیرہ انھیں ازبر تھا، دعا کرانے پر آتے تو قرآنی سورتوں کی طرح مسنون دعائیں پڑھتے چلے جاتے ایسا محسوس ہوتا کہ مکمل حصن حصین حفظ کئے ہوئے ہیں، فراغت کے بعد چند سال مدرسہ فیض المنت, ڈومریا میں درس و تدریس سے منسلک رہے ، اس کے بعد گاؤں کے لوگوں کے اصرار پر مدرسہ مقصود العلوم رامپور ، رانی گنج ،ارریہ آگئے،اور وہیں بچوں کی تعلیم کے ساتھ مدرسے سے متصل مسجد میں امامت بھی انجام دیتے رہے، اور تادم آخر منصب امامت سے مربوط رہے، ادھر کئی سالوں سے ضعف بڑھ گیا، چلنا پھر بالکل کم ہوگیا تھا، مستقل طور پر مدرسہ کے ایک کمرہ میں مقیم ہوگئے تھے، دعاء لینے کے لئے عقیدت مندوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا،   
ہفتہ دس دن قبل میرا گھر جانا ہوا، مدرسہ مقصود العلوم پہنچا، عصر کی نماز بعد حضرت حسب معمول برآمدے پر بیٹھے تھے، طبیعت بڑی خوشگوار معلوم ہورہی تھی، میں نے سلام کیا ، مسکراتے ہوئے جواب دئیے اور کافی دیر تک مجھے دعاء دیتے رہے، اور میں آمین آمین کہتا رہا، پھر کہنے لگے ، بیٹھئے چائے منگواتا ہوں،  چونکہ مجھے بازار جانا تھا، اس لئے معذرت کر لی، اس کے کل ہوکر میں بلتھرا روڈ(یعنی جامعہ اسلامیہ بانسپار بہوروا بلتھرا ،روڈ) آگیا، کسے معلوم تھا کہ  اب اس جہان فانی میں مرحوم کی زیارت کبھی نہیں ہو سکے گی، اور وہ اتنی جلدی ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوجائیں گے، 

            رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
             تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں
                                           (کیفی اعظمی) 
5، مارچ 2020، مطابق،9، رجب المرجب 1441ھ، بروز پنج شنبہ بعد نماز ظہر نماز جنازہ ادا کی گئی، مرحوم کے صاحبزادہ حافظ شاہ عالم نے جنازے کی نماز پڑھائی، اور رشتے داروں ، شاگردوں اور عقیدتمندوں کی ایک بڑی تعداد نے نم آنکھوں کے ساتھ اس جلیل القدر ہستی کو رامپور کے قبرستان میں مستور کردیا، 
             جنہیں اب گردش افلاک پیدا کر نہیں سکتی
          کچھ ایسی ہستیاں بھی دفن ہیں گور غریباں میں
                                           (مخمور دہلوی)
مرحوم کے پسماندگان میں دو صاحبزادیاں اور ایک صاحب زادہ ہیں، سب  شادی شدہ اور صاحب اولادہیں، اہلیہ محترمہ چند سال قبل ہی اللہ کو پیار ہوگئیں تھیں، الله تعالی تمام پسماندگان  کو صبر جمیل عطا فرمائے، اور مرحوم کے قبرکو منور کرے اور جنت میں اعلی مقام عطاء فرمائے، 
               شمشیر حیدر قاسمی، 
6/03/2020,

0 comments :

Post a Comment

Cancel Reply