chandar shekhar in urdu سب کی ایک ہی خواہش ہے کے ہندو راج بنے یا سیاسی روٹی سیکنے کے لئے توا تیار ہو جاۓ



آخر کب تک ہم دوسروں کے پیچھے بھاگتے رہیں گے ہمارا اپنا PLATE FARAM کب مضبوط ہوگا ہم جس پارٹی کا سہارا لیتے ہیں وہی پارٹی ہمیں پیچھے سے چھرا گھونپتی ہے ہم کانگریس کی تعریف کے ایک عرصے تک گن گاتے رہے لیکن کانگریس نے ہمیں اندھیرے میں رکھ کر BJP اور RSS کو عروج بخشا انہیں پناہ دی اگر کانگریس مسلمانوں تئیں اتنی ہمدرد ہی تھی تو اس وقت جب پورے دہلی میں خون اور آگ کی ہولی کھیلی جارہی تھی کانگریس میدان میں کیوں نہیں اتری RSS پر بین کی بات کیوں نہیں کرتی ہے ،

کسی بھی  سیاسی پارٹی کو لے لیجیے سب آپس میں اندر سے ملے ہوے ہیں اور سب کی ایک ہی خواہش ہے کے ہندو راج بنے یا سیاسی روٹی سیکنے کے لئے توا تیار ہو جاۓ صاف ظاہر ہے کے اس وقت جب ایک سے بڑھ کر ایک سپریم کورٹ کے وکیل گریجویٹ انسان روڈ پر آچکے ہیں ان سیاسی پارٹیوں کو کیا ہو گیا ہے کے یہ آواز نہیں اٹھا رہے ہیں ،

معلوم ہوتا ہے کے انکو اپنی پارٹی سے مطلب ہے جنتا جاۓ بھاڑ میں چاہے یہ زندگی بھر پریشان رہیں لیکن انکو اپنی پارٹی کے وجود اور بقا سے مطلب ہے اگر ملک کو ہندو راشٹر بننا طے ہے اور سیاسی پارٹیاں جمہوریت پسند ہیں تو ان تمام پارٹیوں کو اپنے سویدھان کی حفاظت کے لئے سڑک پر آجانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا ،

ممکن ہے کے BJP اور RSS کو بھی معلوم ہے کے پورے ملک کو ہندو راشٹر کی طرف دھکیل دینا نا ممکن ہے لیکن کم ازکم انہیں اتنا تو ضرور فائدہ ہوگا کے انکے لئے ہندو ووٹ بنک بن جاۓ اور دوسری سیاسی پارٹیوں کو دوسرے تمام اقلیت کو ڈرا کر ووٹ بٹورنے میں کام آئے اس طرح سے سیاست کے لئے ایک نیا روٹی کا توا تیار ہو جاۓ گا ،

آخر اب بھی ہم کیوں شس و پنج میں پڑے ہیں اپنی قوم کا پلیٹ فارم مضبوط کرنے کی فکر کیوں نہیں کرتے ہیں ابھی جو سب سے بڑی مضبوط پارٹی سیاسی میدان میں ابھر کر آئ ہے وہ ہے مجلس کی پارٹی لیکن افسوس ہے کے ہم اپنی قوم کے پلاٹ فارم پر جمع ہونے کو تیّار نہیں ہیں ،

قسم خدا کی اگر اس چیز کی شروعات کر دی جاۓ تو وہ دن دور نہیں کے جب ساری قومیں ہماری قوم کے پیچھے دوڑے گی اس لئے کے دنیا ہماری تاریخ کے سنہرے دور کو جانتی ہے مسلم حکمرانوںکے عدل و انصاف بھی انہیں یاد ہے اگر تیس کروڑ میں بیس کروڑ ایک پلاٹ فارم پر آجاۓ تو امید ہے کے دوسری قومیں بھی ہمارے پیچھے کھڑی ہوگی ،

آج جب کے یہ حال ہے کے ہم دوسروں کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں اور دوسروں سے مدد کی امید باندھتے ہیں لیکن پٹ جاتے ہیں کوئی مدد کے لئے نہیں آتا ہے گجرات میں پٹے بھاگلپور میں پٹے کلکتہ میں پٹے مظفر نگر میں پٹے دہلی میں پٹے پر کوئی سہارا دینے نہیں آیا پٹنے کے بعد تو سہارا دینے والوں کی لائنیں لگ گئی وہ تو ظاہر سی بات ہے کے مرنے کے بعد اسکو ٹھکانے لگانا واجب ہو ہی جاتا ہے ،

مرنے کے بعد ایک جانور بھی اپنے مردار بھائی کو ٹھکانہ لگاتا ہے لیکن خدا کے واسطے یہ کام بند کیجیے الله کا نام لیکر مجلس کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیے اس لئے کے ابھی فی الحال مجلس ہی سویدھان کو بچانے سیاسی اور سماجی میدان میں میں کھڑے ہیں انکا ساتھ دیجیے ،

آپ کو کوئی ساتھ نہیں دیگا چاہے وہ جتنا بھی ہمدرد نظر آئے الله کے نبی کا فرمان کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا الکفر ملت واحدہ بہروپیے بدل کر مشفق اور ہمدرد و غمگسار کے لبادے میں آئینگے انہیں پہچاننے کی کوشش کیجیے ، 
 chandar shekhar azad urdu,chandarshekhar azad,chandar shekhar

*مسلمانانِ ہند چند شیکھر کی پارٹی سے دور رہیں* 

دلت لیڈر چندر شیکھر نے آج ٹوئٹر پر اپنی علاحدہ سیاسی پارٹی بنانے کے متعلق اپنا مقصد ظاہر کردیا ہے ، وہ اپنی پارٹی کی بنیاد رکھ کر اب مسلمانوں کا سیاسی استعمال شروع کرے گا، مسلمانانِ ہند آزادی کے بعد سے ہی سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں، جو چاہتا ہے جب چاہتا ہے مسلمانوں کا سیاسی استعمال شروع کردیا ہے،

 اب ایک اور چمار مسلمانوں کا سیاسی استعمال کرنے کے لئے میدان میں آنے کی کوشش کررہا ہے، یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ چندر شیکھر کا مسلمانوں کے پیچھے پیچھے بھاگنے اور مسلمانوں کے احتجاجوں اور پروگراموں میں شرکت کرنے کا مقصد کیا تھا،

 جب اس نے دیکھا کہ مسلمان میرے پیچھے پیچھے بھاگا بھاگا پھر رہا ہے، اپنی برادری سے زیادہ مسلمانوں کی بھیڑ ہوتی ہے تو اس نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی پارٹی تشکیل دینے کا مقصد ظاہر کردیا ۔ مسلمانِ ہند اگر باشعور ہیں تو انہیں دہلی کے حالیہ فساد کے پسِ منظر میں چند شیکھر کی منافقت 

یاد رکھنی چاہیے - 
چندر شیکھر نے دہلی فساد سے قبل بھارت بند کے اعلان کے ذریعہ مسلمانوں کو دہلی کی سڑکوں پر اتارا، جعفرآباد میں خواتین نے سڑک جام کیا توپولیس نے ظلم وبربریت اپناتے ہوئے ساری حدیں پار کردیں اور ہماری ماں بہنوں کے ساتھ گھناؤنا سلوک کیا-  

اس وقت یہ منافق مسلمانوں کا ساتھ دینے اور ان کی مدد کرنے کے بجائے راہ فرار اختیار کر گیا، چندر شیکھر اور اس کی پوری ٹیم مسلمانوں کے خلاف برپا تشدد و مظالم پر تماشہ دیکھتی رہی ، یہ لوگ مسلمانوں کو میدان میں تنہا چھوڑ کر خود رفو چکر ہوگئے، 

چونکہ یہ ہمارے ساتھ لڑائی میں خلوص کے ساتھ شریک نہیں ہوئے تھے، اسی لئے راہ فرار اختیار کر گئے - مسلمان تمام مظالم خود سہتے ہیں، اپنا مال اور جان تک قربان کرتے ہیں اور کریڈٹ یہ چمار بھنگی لیتے ہیں، ہم گزشتہ 77 سال سے ہندوستان کے مختلف علاقوں اور صوبوں میں سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے آرہے ہیں، 

آج بھی کالے قوانین پر کوئی بھی پارٹی کھل کر ہمارے ساتھ شریک نہیں، مسلمانوں کی خیر خواہ اور ہمدرد سمجھی جانی والی سیاسی پارٹیاں بھی توجہ دلانے کے باوجود چپی سادھے ہوئے ہے، ان کے زبانوں سے مسلمانوں کی حمایت میں ایک لفظ تک نہیں نکلتا، یوپی کے مسلمانوں پر کالے قانون کی مخالفت کرنے پر یوگی پولیس کی طرف سے مظالم ڈھائے گئے، یوگی پولیس کی طرف سے تاریخ کا بدترین تشدد کیا گیا، لیکن تمام پارٹیاں چپ رہیں، 

جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بدترین بربریت ہوئی، حیوانیت کا نگا ناچ ناچا گیا، لیکن مسلمانوں کا وؤٹ بٹورنے والی کوئی بھی سیاسی پارٹی آگے نہیں آئی ، ملک کے مسلمانوں کے مسائل پر کوئی آواز اٹھانے والا نہیں، دہلی میں فساد ہوا، تو کیا دلت،کیا ہندو سب ایک یک جٹ ہو کر مسلمانوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنانے میں پیش پیش رہے ، بجرنگ دل، 

وشو ہندو پریشد اور دیگر شدت پسند ہندو تنظیموں میں دلت اور چمار ہی بھرے پڑے ہیں، سب نچلی ذات کے لوگ ان تنظیموں میں شامل ہیں، جو مسلمانوں کو آئے دن تشدد کا نشانہ بناتے رہتے ہیں، کیا ان لوگوں سے یہ توقع رکھی جاسکتی ہیں کہ یہ مسلمانوں کے ہمدرد ثابت ہونگے؟ مسلمان بار بار دلتوں کے ساتھ اتحاد کی کوشش کرچکا ہے، لیکن ان دلتوں نے مسلمانوں کے ساتھ بےوفائی کی ہے،

 آپ کو یاد یوگا کہ گزشتہ یوپی کے الیکشن میں تمام مسلم تنظیموں کی جانب سے مسلم دلت اتحاد کا نعرہ بلند کیا گیا اور اسی نعرہ سے مرعوب ہوکر تمام مسلمانوں نے یک طرفہ ہوکر مایاوتی کو وؤٹ دیا، لیکن اس وقت تمام بھنگیوں، چماروں اور دلتوں نے بی جے پی کو وؤٹ کرکے مسلمانوں کی پیٹ میں خنجر گھونپ دیا، مسلمانوں کو سیاسی طور پر دھوکہ دیا- 

ان بھگنیوں سے اب کوئی امید رکھنا ہی بے وقوفی، ناسمجھی اور بڑی نادانی ہوگی ، یہ سب مسلمانوں کے خلاف متحد ہیں، ہندو سماج اب ذات پات سے اوپر اٹھ کر "ہندو" قوم کے نام پر متحد ہیں، (الکفارملۃٌ واحدۃٌ)تمام غیرمسلم ایک ہیں، یہ اپنی پارٹی بنا کر مسلمانوں کا صرف اور صرف استعمال کرکے اپنا الو سیدھا کریں گے ، مسلمان اگر سیاسی سماجی اور معاشی طور پر مستحکم ہونا چاہتا ہے

، تو مسلمانوں کو اب اپنے درمیان سے ہی ایسے جہاں دیدہ شخص کو منتخب کرنا ہوگا، جو قوم و ملت کا سچا ہمدرد ہو، جو واقعی ملت کا غمگسار ہو اور جسے واقعی مسلمانانِ ہند کے مسائل کی فکر ہو، اور یاد رکھنا جب تک آپ لوگ سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنتے رہیں گے، اس وقت آپ لوگوں کی معاشی سماجی زندگی میں سدھار نہیں آئے گا، اسی طرح کٹتے مارتے رہیں گے، کوئی پرسان حال نہیں ہوگا ،کوئی آواز بلند کرنے والا نہیں ہوگا، 

دوسروں کے ہاتھوں سیاسی استعمال ہونے کی وجہ سے آج یہ نوبت آگئی کہ اپنے ہی آباؤ اجداد کی زمین ہمارے اوپر تنگ کردی گی، تسلسل کے ساتھ ہمارے خلاف مختلف قوانین بننے لگے، سرکاری عہدوں سے ہمیں بےنیاز رکھا گیا، ہمیں اب خود ہی اپنی مضبوط سیاسی طاقت بنانے کے متعلق سوچنا ہوگا، سیاسی طور پر ملک بھر میں مضبوط نمائندگی درج کرانے کا وقت ہے،

 مسلمان کسی سیاسی پارٹی پر انحصار کرنے کی جگہ اللہ پر توکل کرکے تنہا ہی اپنی مضبوط سیاسی طاقت بنائیں، آج اس برے وقت میں مسلم وؤٹ بٹورنے والی تمام سیاسی پارٹیاں مسلمانوں سے منہ پھیرے کھڑی ہے، کوئی بھی مسلمانوں کے ساتھ اس کالے قانون کی لڑائی میں شریک نہیں، تنہا مسلمان ہی اس لڑائی کو جاری رکھے ہوئے ہے، 

ملک بھر میں مسلمانوں کی جانب سے ہی کالے قانون کے خلاف احتجاجات جاری ہیں-  کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کسی علاقہ میں دلتوں کا احتجاج مسلسل تین مہینے سے چل رہا ہو؟ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ دوران مظاہرہ کوئی دلت مرا ہو؟ یا زخمی ہوا ہو، ان کے املاک وغیرہ کو نقصان پہنچا ہوا ہو؟ تو جب قربانی ہماری ہے تو کریڈٹ ان کے کھاتے میں کیوں؟ ہماری قیادت ان کے ہاتھوں میں کیوں؟ 

آج کی یہ لڑائی بنیادی طور مسلمان ہی لڑ رہا ہے، اس لڑائی میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اگرچہ سکھ برادری اور سیکولر ہندو ہمارے ساتھ ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کو ہم اپنی قیادت سونپ دیں - خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان سیاسی طور پر اپنی نمائندگی خود ہی کریں، سیاسی استعمال ہونے سے بچیں، چندرشیکھر کے پیچھے نہ جائیں، ورنہ ایک بار پھر استعمال ہوں گے اور نتیجہ صفر رہے گا ۔

 *آزاد صحافی شاہد معین*

0 comments :

Post a Comment

Cancel Reply